نہ عطائے یار سے کچھ نہ فریب کار سے ہے
کہ مجھے تو بس شکایت دلِ بے مہار سے ہے
غمِ ہجر سے نہیں ہے مرا اعتبار کیجے
ان اداسیوں کا ناتا غمِ روزگار سے ہے
تری معذرت نقالی یہ ملول چہرہ جھوٹا
مجھے واسطہ بھلا کیا ترے اعتذار سے ہے
وہ کرشمہ ساز چاہے جسے پر بہار کر دے
تو حسد چمن کو کیوں کر گلِ بے بہار سے ہے
وہ چراغِ آرزو ہے جو کہ تیرگی مٹا دے
مرا آشیاں بھی روشن اسی گلعذار سے ہے
غمِ آگہی بھی کیا ہے جو لہو مرا نچوڑے
ہوئی زندگی مشابہ کسی خلفشار سے ہے
کبھی چپکے چپکے سِدْویؔ کسی جگنو کو پکڑنا
کہیں کھو گیا وہ بچپن کسی ریش دار سے ہے

0
124