سب کی اپنی اپنی منطق اور حوالہ کوئی نہیں تھا
جو کہ زبانوں پر لگ جائے ایسا تالا کوئی نہیں تھا
دور تلک بسمل کا شاید دیکھا بھالا کوئی نہیں تھا
یا پھر ظلم کی رسمیں سِدْویؔ توڑنے والا کوئی نہیں تھا
زہر اگلتے لہجوں کی اک رسم عجب تو نے ڈالی ہے
لاش پڑی تھی قاتل بھی تھا قتل کا آلا کوئی نہیں تھا
کیسا آہنی شخص تھا راہ سے خار برابر چنتا رہا اور
برسوں برہنہ پا چل کر بھی پاؤں میں چھالا کوئی نہیں تھا
کاسہ درازوں کی دنیا میں شاہ بھی تھے محتاج بھی لیکن
مانگنے والے بہت تھے سدوی بانٹنے والا کوئی نہیں تھا

0
30