| سب کی اپنی اپنی منطق اور حوالہ کوئی نہیں تھا |
| جو کہ زبانوں پر لگ جائے ایسا تالا کوئی نہیں تھا |
| دور تلک بسمل کا شاید دیکھا بھالا کوئی نہیں تھا |
| یا پھر ظلم کی رسمیں سِدْویؔ توڑنے والا کوئی نہیں تھا |
| زہر اگلتے لہجوں کی اک رسم عجب تو نے ڈالی ہے |
| لاش پڑی تھی قاتل بھی تھا قتل کا آلا کوئی نہیں تھا |
| کیسا آہنی شخص تھا راہ سے خار برابر چنتا رہا اور |
| برسوں برہنہ پا چل کر بھی پاؤں میں چھالا کوئی نہیں تھا |
| کاسہ درازوں کی دنیا میں شاہ بھی تھے محتاج بھی لیکن |
| مانگنے والے بہت تھے سدوی بانٹنے والا کوئی نہیں تھا |
معلومات