ترے فریب سے پہلے غموں کی زد میں نہیں تھا
مصاحبت کا بھلا ہو دل اپنی حد میں نہیں تھا
نصابِ عشق پڑھا ہے میں نابلد تو نہیں ہوں
عدم جوازِ رفاقت کسی سند میں نہیں تھا
سمجھ سکا نہ کبھی میں حیاتِ ثانیہ کے بھید
کفن بدن سے جدا تھا ، بدن لحد میں نہیں تھا
وہ ناخدا نے مچایا تھا شور ناؤ گِھری ہے
اچھال مثلِ تلاطم گو جزر و مد میں نہیں تھا
ہٹا دے تہمتِ عالم ، جفا گری کا ہر الزام
کہ الفتوں میں تغافل ، ہمارے جد میں نہیں تھا
طلسمِ زیست کے زیرِ اثر جو عمر گنوائی
توکل آپ میں کم تھا کمال بد میں نہیں تھا
تشکّر آپ کے رد کا ، دعائے خیر کروں گا
کہ مسترد جو نہیں تھا وجود قد میں نہیں تھا
الٹ نظام جہانوں کے ، رنگ ایسے ہیں سِدْویؔ
طرب فزا تھی جہالت سکوں خرد میں نہیں تھا

0
52