| دلِ بیتاب سے بے تال دھواں اٹھتا ہے |
| پیکر و روح ہیں پامال دھواں اٹھتا ہے |
| مسلکِ عشق کے فتنوں سے تو بچ نکلا ہوں |
| حدتِ ہجر سے تاحال دھواں اٹھتا ہے |
| عَبَث اِک تلخی سے دشمن ہوئے ہیں دوست یہاں |
| بن گئے آتشِ سیال ، دھواں اٹھتا ہے |
| قطرۂ خوں تپشِ عشق سے جب جل جائے |
| جسد سے کوئلہ تمثال دھواں اٹھتا ہے |
| بخل کی تیری یہ خو لے چلی دوزخ کی طرف |
| طوق ہے کثرتِ اموال ، دھواں اٹھتا ہے |
| زدِ طوفان گلستان رہا یوں سِدْویؔ |
| ایک شعلے سے جلی ڈال دھواں اٹھتا ہے |
معلومات