دلِ بیتاب سے بے تال دھواں اٹھتا ہے
پیکر و روح ہیں پامال دھواں اٹھتا ہے
مسلکِ عشق کے فتنوں سے تو بچ نکلا ہوں
حدتِ ہجر سے تاحال دھواں اٹھتا ہے
عَبَث اِک تلخی سے دشمن ہوئے ہیں دوست یہاں
بن گئے آتشِ سیال ، دھواں اٹھتا ہے
قطرۂ خوں تپشِ عشق سے جب جل جائے
جسد سے کوئلہ تمثال دھواں اٹھتا ہے
بخل کی تیری یہ خو لے چلی دوزخ کی طرف
طوق ہے کثرتِ اموال ، دھواں اٹھتا ہے
زدِ طوفان گلستان رہا یوں سِدْویؔ
ایک شعلے سے جلی ڈال دھواں اٹھتا ہے

0
40