| اپنی آزادی اور وقار کو دیکھ |
| اے اسیرِ قفس نہ خار کو دیکھ |
| عارضی زندگی کا راگ نہ چھیڑ |
| دائمی عمر و برگ زار کو دیکھ |
| تیغ زن تجھ کو تھی جو حسرتِ دید |
| پس تو بسمل کے خوں فشار کو دیکھ |
| مجھ سے مت پوچھ یورشِ افلاس |
| بس یکم اور مکان دار کو دیکھ |
| کیوں نظر پھیرتا ہے تو مجھ سے |
| اب تحمل سے اضطرار کو دیکھ |
| عمر بھر جس نے صدمے جھیلے ہیں |
| غمِ دوراں کو ریش دار کو دیکھ |
| کیوں اسیرِ قفس نہیں اڑتا ؟ |
| اپنے کھینچے ہوئے حصار کو دیکھ |
| تجھ کو دیکھے نظر چرا جائے |
| یوں نہ اپنے ستم شعار کو دیکھ |
| نہ صداؤں پہ کان دھر سِدْویؔ |
| رحم مت کر قصور وار کو دیکھ |
معلومات