| شجر گرے کہیں غنچے چٹک گئے |
| جب آنسو چشمِ صنم سے ٹپک گئے |
| دیارِ غیر میں لیلائیں چل پڑیں |
| غموں کی ڈال پہ مجنوں لٹک گئے |
| نہ جانے کیسے مرے غم گسار تھے |
| نمک جو زخم پہ میرے چھڑک گئے |
| یہ لگ رہا ہے کہ مشکل میں آپ ہیں |
| اِدھر کا آپ جو رستہ بھٹک گئے |
| ہمیں بھی شہرِ خموشاں تو جانا ہے |
| ہمارے پیارے جہاں یک بیک گئے |
| اگرچہ راہ سے واقف نہیں تھے ہم |
| پہ جستجو میں بہت دور تک گئے |
| ملن کی آس اسی شب ہوئی تمام |
| حجاب اس کو تھا ہم بھی جھجک گئے |
| جو بے وفائی کا الزام دیتے تھے |
| جو خود پہ آئی تو فوراً بھڑک گئے |
| یہ ناخدا تو سفینہ ڈبوئے گا |
| تم ابتدائے سفر میں کھٹک گئے |
| عجیب بات ہے سِدْویؔ فتن شعار |
| جنوں کی آگ میں خود بھی دہک گئے |
معلومات