ذہن سے نسلی تعصب حبِ ذات نکال
خاکی رکھ امید یہ کالی رات نکال
سن دلبر دل کٹتا ہے خاموشی سے
وقت کٹے تو بات سے کوئی بات نکال
لکھ کے نام مٹائیں بچپن یاد کریں
مشق کریں پھر تختی سیاہی دوات نکال
عشق میں عاشق اور معشوق میں کیا تکرار
بدظن اپنے دل سے سب خدشات نکال
فتح نصیب تو بھی کہلائے گا سِدْویؔ
دل سے شکست کے پہلے سبھی صدمات نکال

0
37