ظلم پر آپ چوں نہیں کرتے
آبرو ہو تو یوں نہیں کرتے
شَجَرِ خُلْد کے طلبگاران
جبر پر سر نگوں نہیں کرتے
کچھ تو اوروں کے واسطے بھی چھوڑ
رزق سب کا دروں نہیں کرتے
نہ ہے ابرو میں خم نہ زلف دراز
نین بھی سرمہ گوں نہیں کرتے
ہم ہیں شاعر زمیں کشید کریں
حرف تابع فسوں نہیں کرتے
عشق اب بن گیا وسیلۂِ مرگ
اعتبار آپ کیوں نہیں کرتے
رقصِ بسمل دکھائیے سب کو
پسِ دیوار خوں نہیں کرتے
کچھ تو حیلہ ہو باعثِ تسکین
ہر گھڑی بے سکوں نہیں کرتے
سِدْویؔ کچھ بخت نے بھی مارا ہے
حال ہم خود زبوں نہیں کرتے

0
46