| ہر لحظہ مجھے زخمِ جگر کاٹ رہا ہے |
| دنیا میں کوئی جیسے سقر کاٹ رہا ہے |
| کچھ کچھ غمِ فرقت بھری ٹہنی کو بھی ہو گا |
| گرتے ہوئے پتے کو یہ ڈر کاٹ رہا ہے |
| انسان کڑی دھوپ میں ڈھونڈے کہیں سایہ |
| نادان مگر خود ہی شجر کاٹ رہا ہے |
| مے کش کہے دن گزرے شبِ عیش سجی ہو |
| افلاس زدہ گن کے پہر کاٹ رہا ہے |
| اک کاسہ گدائی کا ملا ارث میں جس کو |
| ہستی ہے گراں اس کو مگر کاٹ رہا ہے |
| کچھ غم دلِ محزون کا تحریر میں آئے |
| پس آج وہ لکھ لکھ کے سطر کاٹ رہا ہے |
| سِدْویؔ وہ بیاں کرتا ہوں جو دیکھ رہا ہوں |
| ہر پنچھی یہاں دوجے کے پَر کاٹ رہا ہے |
معلومات