جو زدِ ہراسِ قضا رہا ، میں وہ آدمی ہوں ڈرا ہوا
کہ نہ ذی حیات نہ جاں بلب ، شرِ زندگی کا ڈسا ہوا
جو سبق عروج و زوال کا وہ فریب کار سکھا گئے
نہ کتاب میں تھا پڑھا ہوا نہ ہمیں تھا پہلے رٹا ہوا
سرِ عام اپنی بھڑاس اب دلِ بے قرار نکال دے
جو ترے حرم کا مکین تھا ، وہی آج تلخ نوا ہوا
وہ جو روح و دل کی پکار تھی نہ کہی گئی نہ سنی گئی
بڑی آرزو تھی مجھے ملے، جو مجھے ملا ، نہ جدا ہوا
جسے آندھیاں نہ بجھا سکیں دلِ مضطر و دلِ ناصبور
وہ چراغ تو نے بجھا دیا ، تو مجھے بتا ، تجھے کیا ہوا
کسی شاخ پر وہ پرند تھے جو اڑا دئے کسی شخص نے
جو بنا رہے ہیں وہ گھونسلہ ، اسے رہنے دے تو بچا ہوا
تو ہی آشنا رگ و پے سے ہے ، رگِ جان تک سے ہے باخبر
دلِ سِدْویؔ کو تو قرار دے ، جو ہے رنج و غم سے بھرا ہوا

0
256