پلکوں سے جاری ہے جو وہ برسات ڈھونگ ہے
پس اختتام ڈھونگ ، شروعات ڈھونگ ہے
خدمات کا جو راگ ہے حضرات ڈھونگ ہے
حکام کا تو عہد بھی بد ذات ڈھونگ ہے
اعلی حسب نسب پہ ہے تجھ کو بھی تھوڑا زعم
واعظ ترا یہ درسِ مساوات ڈھونگ ہے
کیوں کر سخاوتوں کا تجھے ہو گیا خلل
جو چور بانٹتا ہے وہ خیرات ڈھونگ ہے
کھائی ہے مات ظرف ترا آزمانے کو
رکھ جاری جشن گرچہ مری مات ڈھونگ ہے
نَے گل میں رنگ و بو ہے نہ بلبل ہے نعرہ زن
گلشن میں انبساط کی بہتات ڈھونگ ہے
مانا کہ اس کو حسن پہ ہے بے سبب غرور
سِدْویؔ ترا بھی فخر و مباہات ڈھونگ ہے

0
78