پلک جھپکتے میں سارا جہان روٹھ گیا
پدر کے بعد مرا خاندان روٹھ گیا
ابھی ہوں زخمی ، دریدہ نشان باقی ہیں
حبیب میرا مسیحا سمان روٹھ گیا
سخن گداز سبھی لہجے اس کے باعث تھے
ہوئے ہیں تلخ کہ جب خوش زبان روٹھ گیا
ملال و رنج میں باقی حیات گزرے گی
جو سایہ بن کے رہا سائبان روٹھ گیا
لگی جو باڑ دریچے جدا ہوئے گھر کے
مکین جس میں تھے وہ آشیان روٹھ گیا
نہ میں ادھر کا رہا اور نہ ہی ادھر کا رہا
سفر کے بیچ مرا کاروان روٹھ گیا
قحط زدہ ہے زمیں بارشیں نہیں ہوتیں
زمین والوں سے تو آسمان روٹھ گیا
درشت کتنی یہ بے سائبانی ہے سِدْویؔ
مجھے خبر ہوئی جب پاسبان روٹھ گیا

0
74