مرے دل سے دور نہ ہو سکا جو کبھی قریب نہیں رہا
وہ مجھے نہیں ملا تو کیا وہ مرا حبیب نہیں رہا
تو مشامِ جاں سے نکل گیا تو دریچۂِ شبِ غم کھلا
میں یہاں سے تجھ کو نکال دوں یہ مرا نصیب نہیں رہا
نہ خزاں بہار چمن میں ہے نہ ہیں بلبلیں نہ ہی گل کھلے
ہے مثالِ نغمۂِ سنج دل ، کوئی عندلیب نہیں رہا
اسے اطلاع کرے کوئی کہ قضا قریب ہے دوستو
نہ قصور وار اسے کہیں وہ مرا طبیب نہیں رہا
نظر آئے رنج کی تیرگی تو کلام سِدْویؔ ملال ہے
پھر امیدِ صبحِ وصال کیا جو سخن مہیب نہیں رہا

0
45