| مرے دل سے دور نہ ہو سکا جو کبھی قریب نہیں رہا |
| وہ مجھے نہیں ملا تو کیا وہ مرا حبیب نہیں رہا |
| تو مشامِ جاں سے نکل گیا تو دریچۂِ شبِ غم کھلا |
| میں یہاں سے تجھ کو نکال دوں یہ مرا نصیب نہیں رہا |
| نہ خزاں بہار چمن میں ہے نہ ہیں بلبلیں نہ ہی گل کھلے |
| ہے مثالِ نغمۂِ سنج دل ، کوئی عندلیب نہیں رہا |
| اسے اطلاع کرے کوئی کہ قضا قریب ہے دوستو |
| نہ قصور وار اسے کہیں وہ مرا طبیب نہیں رہا |
| نظر آئے رنج کی تیرگی تو کلام سِدْویؔ ملال ہے |
| پھر امیدِ صبحِ وصال کیا جو سخن مہیب نہیں رہا |
معلومات