وہ سنگ تھا تو جوش بھی سیلِ رواں میں تھا
کیا جانے ولولہ سا مرے ہم عِناں میں تھا
ترکِ تعلقات ہو یا اس سے دوری ہو
منصف ترا تو فیصلہ میرے زیاں میں تھا
کچھ کچھ عیاں تھا جذبہِ جوش و جنون اور
کچھ کچھ نہاں بھی خانۂِ ذات و گماں میں تھا
ہم کو کمک بھی پہنچی تو اس کے خلاف کیا
ہر شخص اس کے حلقۂ وارفتگاں میں تھا
سلطاں مثالی عہد کا دعویٰ گو خوب ہے
مفلس پہ ظلم و جور بھی تیرے زماں میں تھا
ہر بات بے دریغ وہ کہہ دیتا تھا مجھے
اس بار اک مدارِ تکلف بیاں میں تھا
اس کو دلاسہ دیتے تھے میت کو بھول کر
ہر آنکھ نم تھی سوز وہ ماتم کناں میں تھا
سوز و گداز لایا ہے واعظ خطاب میں
عنصر نہ درد کا دلِ نامہرباں میں تھا
سِدْویؔ کسان کو تھا ملال اجڑی فصل کا
کچھ رنج بھی لگان کا آہ و فغاں میں تھا

0
43