العجب اس شہر میں بے یار نہ تھا
دوست مگر کوئی وفادار نہ تھا
اپنے گریباں کے نگہباں تھے، ہمَیں
آئنہ اغیار کا درکار نہ تھا
چاند کا ہر رنگ شکستہ ہو گیا
وہ رخِ زیبا سے چمکدار نہ تھا
گرچہ شب و روز میں غربت سے لڑا
بخت سے کاری تو مرا وار نہ تھا
آج مرے دوست مرے عیب بتا
ایسی جفا کا تو میں حقدار نہ تھا
منتظر آنکھیں تھیں سحر دم کے لئے
رات کی میت پہ عزادار نہ تھا
سِدْویؔ کسی دل میں اترنا ہو محال
ایسا بھی کردار سیہ کار نہ تھا

0
39