| پوشیدہ رنگ لفظوں میں تیری طلب کے ہیں |
| یعنی مرے کلام میں جلوے طرب کے ہیں |
| جتنا ہجوم ساتھ ہے زر کے طفیل ہے |
| احباب توڑ جوڑ کے ماہر غضب کے ہیں |
| گستاخیوں کے بعد بھی برہم وہ کیوں نہ ہو |
| جب سلسلے جڑے ہوئے اس سے ادب کے ہیں |
| کافی وہ چشمِ تر ہے اسیری کے واسطے |
| آتے قطار باندھے گدا بستہ لب کے ہیں |
| اپنے ہی کاروان میں شامل ہیں راہ زن |
| اس قافلے سے ہی مجھے خطرے حَرَب کے ہیں |
| اک کو منا کے لاؤں تو دوجا خفا ملے |
| کرتے مرے عزیز تماشے غضب کے ہیں |
| سِدْویؔ حسب نسب کی ہے دیوار درمیاں |
| اس شخص سے تو فاصلے شرق و غرب کے ہیں |
معلومات