پوشیدہ رنگ لفظوں میں تیری طلب کے ہیں
یعنی مرے کلام میں جلوے طرب کے ہیں
جتنا ہجوم ساتھ ہے زر کے طفیل ہے
احباب توڑ جوڑ کے ماہر غضب کے ہیں
گستاخیوں کے بعد بھی برہم وہ کیوں نہ ہو
جب سلسلے جڑے ہوئے اس سے ادب کے ہیں
کافی وہ چشمِ تر ہے اسیری کے واسطے
آتے قطار باندھے گدا بستہ لب کے ہیں
اپنے ہی کاروان میں شامل ہیں راہ زن
اس قافلے سے ہی مجھے خطرے حَرَب کے ہیں
اک کو منا کے لاؤں تو دوجا خفا ملے
کرتے مرے عزیز تماشے غضب کے ہیں
سِدْویؔ حسب نسب کی ہے دیوار درمیاں
اس شخص سے تو فاصلے شرق و غرب کے ہیں

0
65