معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



395
5700
بزم جب بھی سجی ذکرِ سرکار کی
بے بہا رحمت اتری ہے ستار کی
۔
شوقِ جنت نہ انعام و شہرت کی حرص
نعت سرور طلب ہے فقط پیار کی
۔

0
1
مُفتی شمائل اور مُلْحِد جاوید اختر کے ما بَیْن ہونے والا مُناظَرَہ!!!
——
بَظاہِر تو یِہ لگتا تھا کہ تُم ٹَکَّر کے بَنْدے ہو
بَظاہِر تو یِہ لگتا تھا بڑے ہی کاٹھے مُلْحِد ہو
تُمھیں تو مُلْحِدوں کا کیس لَڑنا ہی نَہِیں آیا
ہَمیں افسوس ہے تُم تو بڑے ہی ماٹھے مُلْحِد ہو

0
1
چڑھ کے سولی پہ زمانے کو منور کرنا
ہم سے شوریدہ سروں کا ہے فسانہ اتنا

0
2
یہاں پر تبصرے میں آپ ایسے الفاظ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن کی تقطیع آپ کے خیال میں سسٹم غلط دکھاتا ہے۔ نیز ایسے الفاظ بھی آپ یہاں پر لکھ سکتے ہیں جو کہ سسٹم  میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ اس طرح الفاظ کو رپورٹ کرنے سے ہم ان کو سسٹم میں داخل کر سکیں گے اور تقطیع کا نظام باقی صارفین کے لئے بھی بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا۔ بہت شکریہ :)

183
7536
خدا جانے کیا عظمتِ مصطفیٰ ہے
عُلی اُن سے رتبے میں واحد خدا ہے
بنا قل امر ہے بیاں مصطفیٰ کا
خدا جس نے دیکھا بتا دوسرا ہے
ذکر دلربا کا عُلیٰ ہے دہر میں
یہ پیغام رب نے انہیں خود دیا ہے

5
وہ کیا بچھڑ گئے کہ فراغت کی رات تھی
لفظوں میں کیسے لائیں کہ آفت کی رات تھی
اب تک بدن میں صورِ سرافیل جیسی گونج
تشہیرِ ہجر تھی کہ قیامت کی رات تھی
دیکھی نہ ہم نے آگ نہ کوئی دھواں اٹھا
اڑتی فقط تھی راکھ حرارت کی رات تھی

0
5
کہیں لگ نہ جاۓ کسی کی آہ جو ہو سکے تو بچا کرو
نہیں توڑو گل کوئی شاخ سے نہیں دل کو دل سے جدا کرو
کسی ضابطے میں رہا کرو کسی قاعدے سے جیا کرو
وہ وفا کرے تو وفا کرو وہ جفا کرے تو جفا کرو
پئے عاشقی کسی اور کو کوئی دوش تم نہ دیا کرو
انہیں پانے کی جو ہو آرزو کبھی جستجو بھی کیا کرو

0
5
ہمیں اب ترا غم چھپانا نہیں ہے
مگر حال دل کچھ سنانا نہیں ہے
نہ جانے وہ کیسا سکوں مانگتا ہے
کہ رو کر بھی دل کو رلانا نہیں ہے
نظر اس پہ پڑتی تو ہے اپنی لیکن
نظارہ ابھی وہ دکھانا نہیں ہے

0
20
ہاتھوں سے مثل ریت پھسلتے چلے گئے
کچھ لوگ میرے دل سے اترتے چلے گئے
برسوں جنھیں سنبھال کے رکھا تھا زندگی
پھر یوں ہوا وہ خواب بکھرتے چلے گئے

0
9
قَوْم کیا؟ اِک کے سِوا کِیڑے مَکوڑے ہیں سَبھی!!!
——
سوچتی بھی کُچھ نَہِیں اور بولتی بھی کُچھ نَہِیں
غاصِبوں کے سَب جَرائِم کی یِہ شاہِد قَوْم ہے
قَوْم کیا؟ اِک کے سِوا کِیڑے مَکوڑے ہیں سَبھی
فَرْدِ واحد، فَرْدِ واحد، فَرْدِ واحِد، قَوْم ہے

0
3
غم سے چہرہ مرا عاری نکلا
چیرا دل تو یہ فگاری نکلا
جس کو سمجھا تھا محرم دل کا
دشمنوں کا وہ حواری نکلا

0
4
در مصطفی پہ اُن کے دیوانے آ رہے ہیں
گجرے درودوں کے ہیں جو ساتھ لا رہے ہیں
ہستی میں جگمگائے سرکار کا مدینہ
نغمے حسین جس کے دارین گا رہے ہیں
نامِ نبی پہ قرباں راہِ سلوک والے
دربارِ دلربا میں مسرور آ رہے ہیں

0
4
اسکا کچھ ایسے دعا لینا مرے شعروں سے
اپنی تقریر سجا لینا مرے شعروں سے
پوچھتے کیوں ہو مکیں کون ہے میرے دل کا
اسکی تصویر بنا لینا مرے شعروں سے
تیرا ڈمپل تری آنکھیں ترے ابرو ترے ہونٹ
خود کو آئینہ دکھا لینا مرے شعروں سے

0
8
آہ ذہنی آزمائش کا ہُوا ہے اختتام
اِس جُدائی پر ہے چھائی دِل میں میرے غم کی شام
حجرِ طیبہ میں رُلایا عاشِقوں کو اِس نے اور
تِشنِگانِ علم کو بھی کیا پِلائے خوب جام
وصل کی اُمید کے ہم نے جلائے تھے چراغ
ہو مُبارک اِذنِ طیبہ کا مِلا جن کو پیام

0
3
وہ دل کو کب تھا یاد کوئی اور شخص تھا
اپنی تھی جو مراد کوئی اور شخص تھا
یہ ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ ہم مزاج ہے
جو کر گیا فساد کوئی اور شخص تھا
چہروں پہ مسکراہٹیں، لہجے میں التفات
بے فیض بے مراد کوئی اور شخص تھا

0
3
دل کو خمار، آنکھ کو دلدار چاہیے
اس دل شکستہ کو نبیؐ، دیدار چاہیے
دنیا کے رنگ، شورِ تمنا فضول ہیں
روحِ پریشاں کو تری سرکار چاہیے
لفظوں میں قید ہو نہ سکا حالِ عاشقی
اس دردِ بے صدا کو بھی اظہار چاہیے

0
4
یہاں پارسائی اصول ہے یہ مزاجِ عشقِ رسول ہے
جو بھی آیا، آقا کے در تلک وہ نصیب والوں میں پھول ہے
یہاں دل کی چلتی صداقتیں نہ عداوتیں نہ کدورتیں
اسے عام چاہ بھی مت سمجھ، یہ نہ لَوح ہے نہ فصول ہے
یہاں سر سجود میں ہر نفس یہی بندگی تو قبول ہے
نہ زبانی شور غرورِ جاں یہاں خامشی کا اصول ہے

0
3
اک ہجومِ بے کراں کے درمیاں ہے زندگی
اللہ کی رحمت سے پھر بھی مہرباں ہے زندگی
خار ہیں گرچہ بہت پھولوں کی ہر اک شاخ پر
کم سہی پھولوں کے دم سے گلستاں ہے زندگی
شُکر ہے لازم بہت ہر سانس میں اللہ کا
عالمِ ناسوت میں ہر دم رواں ہے زندگی

0
15
تُم جیسے گَنْدی نَالِی کے کِیڑوں کو یہ کیا مَعْلُوم
تُم جیسوں کے ذِکر سے بھی ہو جاتی ہے نا پاک زَباں
میرا ظَرْف مُجھے روکے ہے وَرنَہ تو ہَر روز تُمھیں
مَیں بتلاتا مَیں بھی کیسی رَکھتا ہُوں بیباک زَباں
(مرزا رضی اُلرّحمان)

0
4
جس کو لکھی تھیں غزلیں ہم سے پھسی نہیں
دلہن جو بن کے آئی اس سے بنی نہیں
ہر روز اک شکایت ہر روز اک فساد
دلہن تھی ایسی الجھن سلجھی کبھی نہیں
ہر روز تُو تُو میں میں، جھگڑے لڑائیاں
ایسا بھی ہوگا دن جب اس سے ٹھنی نہیں

5
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

395
5700
السلام علیکم ، اللہ کرے سب بخیر و عافیت ہوں۔سورۃ الفاتحہ کا منظوم ترجمہ مطلوب ہے۔

0
3
52