معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



370
5149
کس بھروسے پہ کہوں اتنے برس کا ہوں میں
عمر میری تھی اگر پاس نہ ہوتی میرے
یہ بھی دھوکہ ہے کہوں اتنے برس کا ہوں میں
عمر میری تھی اگر پاس نہ ہوتی میرے
کیسے کہہ دوں کہ سمجھ دیر سے آئی ورنہ
عمر میری تھی اگر پاس نہ ہوتی میرے

0
1
یاد بھی آتی تری ہمدم نہیں ہے
اب کوئی اپنا شریکِ غم نہیں ہے
خوش اگر ہیں آپ تو کیا کم نہیں ہے
اپنی بربادی کا ہم کو غم نہیں ہے
خونِ دل اب آنسوؤں میں ضم نہیں ہے
درد بھی سینے میں اب پیہم نہیں ہے

0
1
چند بھولے ہوۓ اسباق ہوں میں
چند بکھرے ہوۓ اوراق ہوں میں
دید کا بس تری مشتاق ہوں میں
تاکنے میں تجھے مشاق ہوں میں
لاغری سے ہوا ناچاق ہوں میں
بید کی طرح سے بس قاق ہوں میں

0
1
یہاں ہم ہیں جو ہاتھوں کی لکیروں پر الجھ بیٹھے
انھوں نے تو ستاروں پر کمندیں ڈال رکھی ہیں
محمد اویس قرنی

0
3
یا نبی آپ خیرالبشر ہو
پیارے رب کے ہو تاباں قمر ہو
ایسی مجھ پر کرم کی نظر ہو
میرا یہ دل تری رہگزر ہو
جو گدائے شہِ بحر و بر ہو
تب تو کیوں خوار وہ در بدر ہو

0
2
برس پڑی جو گھٹا شب کی خامشی میں کہیں
مہک اٹھی مری تنہائی تیرگی میں کہیں
ہوا کے ساتھ چلی ہے سُرور کی خوشبو
کوئی چھپا تھا مرا درد نغمگی میں کہیں
ہنسی میں، نرگس و گل میں، ہوا کے گیتوں میں
بسا ہوا ہے مرا عشق زندگی میں کہیں

0
3
چاہتوں کے یہ تقاضے نبھاتے رہو
تم گئے ہو تو بھی لوٹ آتے رہو
دور ہو کر بھی دل سے نہ جانا کبھی
خواب آنکھوں میں آ کر سجاتے رہو
شامِ ہجراں میں تنہا کھڑا ہوں مگر
اپنے وعدوں کی شمعیں جلاتے رہو

0
1
چشمِ نازک سے چھلک جاتے ہیں پیمانوں کے رنگ
بادہ نوشی میں بھی چھن جاتے ہیں دیوانوں کے رنگ
کیا ستم ڈھائے زمانے نے دلِ شیدا پہ آج
محو ہو کر رہ گئے بزمِ رفیقانہ کے رنگ
خالدؔ اب ہنگامۂ عشاق کی رونق گئی
سینۂ افسردہ میں باقی نہ پروانوں کے رنگ

0
3
مرے کام آئیں گے کیا ترے ہجر کے سہارے
کیا لکھیں مرا نصیبہ، شبِ تیرہ میں ستارے
ابھی الجھنوں کے در سے یہ صبا پیام لائی
مرے عشق سے ہی الجھے یا تری نظر اتارے
دلِ بے کراں میں معنوں کا اگرچہ ہے تلاطم
یہاں دم توڑ دیتے ہیں غزل کے استعارے

0
2
خواب ٹوٹے تو کیا خواب دیکھے تو تھے
ہم مقدر سے کچھ دیر الجھے تو تھے
چار پل ہی سہی کارواں تو چلا
تو ہمارا تو تھا ہم تمہارے تو تھے
تو نے آواز دی ہی نہیں ورنہ ہم
تیرے کوچے میں کچھ دیر ٹھہرے تو تھے

0
17
چاہتوں کے مرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
جان سے گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
ایک عمر لگتی ہے خوابوں کے سجانے میں
خوابوں کے بکھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
زندگانی لگتی ہے سیکھنے میں تیراکی
دریا پار کرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

0
22
سر کاٹ کے رکھ دوں یا جگر چیر کے آگے
دوں کیا کیا ثبوت حسن عناں گیر کے آگے
آنکھیں ہیں تری ٹیڑھی کمانوں کی طرح تیز
دل بن کے شکار آتا ہے خود تیر کے آگے
بخشی ہے خدا نے گو تجھے عقل و لیکن
تدبیر کہاں چلتی ہے تقدیر کے آگے

0
3
بصیرت کھونے دو میری، نظر کوتاہ رہنے دو
مجھے روشن زمانے میں ذرا گمراہ رہنے دو
ابھی آئینۂ دل کو شکستہ ہونا باقی ہے
کسی پتھر کی مورت سے ہی رسم و راہ رہنے دو
کہاں کا فلسفہ دانشوری اپنی دکھاؤں میں
مجھے نا آگہی سے بھی ذرا آگاہ رہنے دو

0
4
جہاں بھی جائیں جدھر بھی جائیں، سروں پہ دھوپوں کا سخت پہرا
ہر اک قدم پر نئی مصیبت
ہر اک قدم ہے نیا جھمیلا
برس رہا ہے فلک سے پل پل
تمازتوں کا
سلگتا شعلہ

0
1
اسلاف کی منور تصویر پِیر عطار
لاکھوں کی تم نے بدلی تقدیر پِیر عطار
تقریر تیری سن کے تائب ہوئے ہزاروں
تیری زبان میں وہ تاثیر پِیر عطار
بد مذہبوں کے سینے چیرے ہیں ضربت اک سے
ایسا تو اعلی حضرت کا تِیر پِیر عطار

0
4
چین آۓ نہ ہی قرار مجھے
ہو گیا ہے کسی سے پیار مجھے
آپ اپنی ہی بس تلاش میں ہوں
آپ اپنا ہے انتظار مجھے
یاد آتا ہے تھام کر ساغر
وہ تری آنکھ کا خمار مجھے

0
2
اتار دے نہ یقیں مجھ کو شک کے پار کہیں
بسیرا اس نے کیا ہے دھنک کے پار کہیں
مری بساط کہاں تھی کہ روک پاتا اسے
دھواں سا بن کے جو اترا افق کے پار کہیں
مجھے گلوں کی لطافت سے اختلاف نہیں
بجھا بجھا سا ہے چہرہ مہک کے پار کہیں

0
1