معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



380
5400
وہ میری طرف اب کیوں مرعوب نہیں ہوتا؟
ایسا تو محبت کا اسلوب نہیں ہوتا
چھو کر کبھی دیکھو ہاتھوں میں نہیں آئے گا
ہر ٹپکا ہوا آنسو مرطوب نہیں ہوتا
رسماً ہی کہا جاتا ہے آپ بھی میرے ہو
سچ تو یہ ہے ہر کوئی محبوب نہیں ہوتا

0
2
شہکار جو قدرت کے دلدار ہمارے ہیں
سرکارِ مدینہ ہیں کونین کے پیارے ہیں
نغمات ہیں آقا کے ہے حمدِ خدا جس جا
دارین میں سب نعرے اس یار کے بارے ہیں
ہستی میں گراں سج دھج اک فیض ہے دلبر سے
اس بحرِ لطافت سے پھر سارے نظارے ہیں

0
اِدْراک میں ابنِ علی آیا ہی نہیں
منکر کے دِل میں وہ سمایا ہی نہیں
شبّیر تو اک ہی آیا ہے ادریسؔ
رب نے کوئی دوسرا بنایا ہی نہیں

2
دل بنا کے تجھ کو تیرے قریب ہو گیا
تجھ پہ سب لٹا کے خود میں غریب ہو گیا
تیرے نقشِ پا پہ سب خوشیاں واری ہیں میں نے
رنج و غم تو جیسے میرا نصیب ہو گیا
میں تری نگاہ کے حسن پر ہی مر گیا
تیرے ہجر میں بہت دل عجیب ہو گیا

3
ہر ظلم مسکرا کر تیرا سہا کریں ہم
آہوں کی بھی نہ لب سے کوئی صدا کریں ہم
۔
آئے ہے جفا کرنا سو تم جفا کرے ہو
ہم کو وفا ہی آئے سو بس وفا کریں ہم
۔

0
5
جہاں والو نے دیکھی ہے یہ طاقت ابن حیدر کی
یزیدیت لرزتی تھی وہ ہیبت ابنِ حیدر کی
جو دشمن کے لیے آندھی جو اپنوں کے لیے سایہ
عجب انداز ہے لطف و شجاعت ابنِ حیدر کی
مرا دعوہ ہے دوزخ میں خدا انکو نہ ڈالے گا
لئے جو مر گیا ہو دل میں الفت ابن حیدر کی

0
2
رہوں میں کس طرح غافل، محبت اک عنایت ہے
مہک اٹھتی ہے ہر محفل، محبت اک عنایت ہے
بھٹک کر راہِ الفت میں جو پہنچا عشق کی منزل
ہوا خوشبو سے بھی غافل، محبت اک عنایت ہے
چمک اٹھا جو اشکوں سےمرا چہرا بنا کامل
یہی ہے عشق کا حاصل، محبت اک عنایت ہے

0
1
تم اپنے تھے بنے صیاد، گولی کیوں چلائی
مسلماں تھے ہوۓ الحاد، گولی کیوں چلائی
ڈراتے کیوں ہو زنداں سے، اٹھیں گے حق کی خاطر
بتا، کیا ہم نہیں آزاد؟ گولی کیوں چلائی
تڑپتے، ڈھونڈتے پھرتے ہیں اپنوں کے یہ لاشے
ہوۓ سب ہی یہاں برباد؟ گولی کیوں چلائی

0
1
خبر یہ کہیں سے ہَوا لاۓ سیدؔ
کہ پھر ان سے ملنے کے دن آۓ سیدؔ
یہ رشتے یہ ناتے سبھی بھول جائیں
خفا ہو کہ سب سے اُسے پاۓ سیدؔ
اگر مل گئے تم تو پھر کیا کرے گا
تمھیں سوچتے ہی جو شرماۓ سیدؔ

0
3
میں جب مسکرایا تری جستجو میں
تو پھر زخم کھایا تری جستجو میں
ہوۓ ہیں پراۓ پھر اپنے ہی ساۓ
یہی کچھ ہے پایا تری جستجو میں
ہر اک سمت میرے قیامت ہے برپا
یہ کیا میں نے پایا تری جستجو میں

0
5
جہاں کیوں یہ اتنا سہانہ بنایا
مرا دل بھی کیوں یہ دوانہ بنایا
گری بجلیاں ٹوٹ کر پھر اسی دم
کوئی میں نے جب آشیانہ بنایا
نگاہیں لگی تھیں پرندوں کی جس پر
وہی پیڑ تو نے نشانہ بنایا

0
عجب ماجرا ہے مرے راستوں کا
نہیں کوئی نام و نشاں منزلوں کا
مری تیز گامی بھی جاری ہے کب سے
ہے قائم مگر سلسلہ فاصلوں کا
وفاؤں کا اک آشیاں ہم بنائیں
چرا لو جو لمحہ کوئی فرصتوں کا

0
3
وطن ہم تجھ کو شانِ جاوداں دیں گے
تری خاطر لہو کیا ہم تو جاں دیں گے
تو ننھی ننھی سی کلیوں کا ارماں ہے
ہماری زندگی کا تو گلستاں ہے
ہماری عزتوں کا تو نگہباں ہے
زمانے بھر کی تم کو عز و شاں دیں گے

0
1
گماں تھا کے بہل جائے گا دل یہ غم چھپانے سے
مرے درد اور بھی بڑھ سے گئے ہیں مسکرانے سے
کرو گے جستجو گر تم ملیں گی منزلیں ورنہ
مقدر مہرباں ہوتے نہیں آنسو بہانے سے
مجھے ایسا لگا ہے لوٹ کر آیا ہے پھر کوئی
یہ جو لگتے ہیں اب بے ربط موسم بھی سہانے سے

0
3
عجب طرح کے یاں نہ دستور ہوتے
تو اہلِ محبت نہ مجبور ہوتے
تری آرزو نے کہاں لا کے چھوڑا
نہ اظہار کرتے نہ مشہور ہوتے
نہ ہم دل لگاتے نہ آنسو چھلکتے
نہ قصے ہمارے یہ مشہور ہوتے

0
3
غلط فہمی کی اک صورت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے
کہ اپنے آپ سے الفت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے
ہمھاری راہ میں جس جس نے بھی کانٹے بکھیرے ہیں
ہر ایسے شخص سے نفرت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے
پریشانی تمھیں ہے یہ کہیں تم کھو نہ دو ہم کو
سو ملتی جلتی اک عادت تمھیں بھی ہے ہمیں بھی ہے

0
1
تمھاری بے حساب الفت سے وہ مشہور ہو جائے
پیار اتنا نہیں کرنا کہ وہ مغرور ہو جائے
محبت ہے تمھیں لیکن خیال اتنا بھی رکھنا ہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ دل مرا رنجور ہو جائے
ملے جب وہ تمھیں ہنس کر، تمھیں بھی ہنس کے ملنا ہے
قریب اتنا نہیں آنا کہ پھر وہ دور ہو جائے

0
1
بڑھ گئی ہے بے رخی ،درگزر کریں گے کیا
فاصلے مٹانے کا عہد بھی کریں گے کیا
راستے بدل گئے ہمسفر بچھڑ گئے
دوریاں جو بڑھ گئیں، دل سے ہم کہیں گے کیا؟
جستجو کرو مگر یہ خیال بھی رہے
بجھ گئے ہیں دیپ جو، وہ کبھی جلیں گے کیا

0
2
عجب شخص تھا پر تھا کتنا بھلا سا
رہا پانیوں میں مگر تھا وہ پیاسا
اُسے کون سی محفلیں راس آئیں
جہاں بھر میں تھا جو کہ لگتا جدا سا
وہ مجذوب تھاگر تو مجذوب رہتا
وہ کیوں ڈھونڈتا تھا جہاں میں شناسا

0
1
وہ جو آشنا کہ ابھی ہوے ہیں محبتوں کے سراب سے
انہیں واسطہ ہی نہیں پڑا ہے رفاقتوں کے عذاب سے
نظر آتی ہیں جو تجلیاں کہ ضیا سے پوچھیں گے پھر بھی ہم
جو نکل کے سامنے آیا تو کبھی بادلوں کے نقاب سے
تو محبتوں کی نزاکتوں سے ابھی نہیں ہے کچھ آشنا
تری نازکی بھی ہے چیز کیا، کبھی تو یہ پوچھ گلاب سے

0
1

0
13
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

380
5400
یہاں پر تبصرے میں آپ ایسے الفاظ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن کی تقطیع آپ کے خیال میں سسٹم غلط دکھاتا ہے۔ نیز ایسے الفاظ بھی آپ یہاں پر لکھ سکتے ہیں جو کہ سسٹم  میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ اس طرح الفاظ کو رپورٹ کرنے سے ہم ان کو سسٹم میں داخل کر سکیں گے اور تقطیع کا نظام باقی صارفین کے لئے بھی بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا۔ بہت شکریہ :)

177
7214