اجڑے دیار سے آہ و بکا جو نہ تخت نشیں تک پہنچے گی
خاک نشیں تک پہنچے گی کسی چشمِ حَزیں تک پہنچے گی
رنج و الم میں ڈوبی صدائیں باسی وسیب کے دیتے رہے
شاہ تلک آواز نہیں تو عرشِ بریں تک پہنچے گی
شہر جلا کر اپنے تئیں اس شخص نے اچھا کام کیا
بچوں کی یہ پکار مگر شہِ دینِ مبیں تک پہنچے گی
پیاسے بہے جو پانی میں سیلاب زدوں کی آہوں میں
آفتِ دہر کی طولانی محراب نشیں تک پہنچے گی
طرزِ سخن پر ناز نہ کر سِدْویؔ یہ کہاں معلوم ہے کب
لوٹ کے محفل شعلہ زباں نکتہ بیں تک پہنچے گی

0
63