| اجڑے دیار سے آہ و بکا جو نہ تخت نشیں تک پہنچے گی |
| خاک نشیں تک پہنچے گی کسی چشمِ حَزیں تک پہنچے گی |
| رنج و الم میں ڈوبی صدائیں باسی وسیب کے دیتے رہے |
| شاہ تلک آواز نہیں تو عرشِ بریں تک پہنچے گی |
| شہر جلا کر اپنے تئیں اس شخص نے اچھا کام کیا |
| بچوں کی یہ پکار مگر شہِ دینِ مبیں تک پہنچے گی |
| پیاسے بہے جو پانی میں سیلاب زدوں کی آہوں میں |
| آفتِ دہر کی طولانی محراب نشیں تک پہنچے گی |
| طرزِ سخن پر ناز نہ کر سِدْویؔ یہ کہاں معلوم ہے کب |
| لوٹ کے محفل شعلہ زباں نکتہ بیں تک پہنچے گی |
معلومات