شجر سے آج جو پتا جھڑا ہے
ہمہ تن آندھیوں سے وہ لڑا ہے
تجھے تنہائیاں ڈسنے لگی ہیں
یا اپنی قبر میں تو آ پڑا ہے؟
شکستِ فاش الفت میں ہوئی پر
شکستہ دل ابھی ضد پر اڑا ہے
مجھے بھی تیرنا آتا نہیں اور
تمہارے پاس بھی کچا گھڑا ہے
پلک پر آپ کی آنسو ہیں جیسے
چمکتی آنکھ میں موتی جڑا ہے
مرے افلاس پر ہنستا تھا کل تک
کڑا دن ناتواں بیں پر پڑا ہے
یہی اب سوچتا رہتا ہوں سِدْویؔ
محبت بوجھ کندھوں پر بڑا ہے

0
52