| تمہاری پلکوں سے ایک آنسو ہتھیلی پر جو ٹپک پڑا ہے |
| کمال الفت کا کھیل کھیلا بہانہ اس پر غضب گھڑا ہے |
| ابھی محبت کے راستے پر تم اک مسافر نئے نئے ہو |
| یہ راستے میں پتہ چلے گا کہ کون ثابت قدم کھڑا ہے |
| ہزاروں کو تم نے مات دی ہے رجز پڑھا جاندار تم نے |
| مگر مرے جیسے سر پھرے سے تمہارا پالا کہاں پڑا ہے |
| مسرتیں ہیں نہ شادمانی سہانا بچپن نہ اب جوانی |
| رہا پدر کا نہ ماں کا سایہ یہ وقت ہم پر بہت کڑا ہے |
| جہان فانی سے ایک دن تو ہر اک نفس کو پڑے گا جانا |
| مشیتِ حق پہ سر نگوں کر اگرچہ ماں کا یہ غم بڑا ہے |
| کسے اجل کی خبر ہے سِدْویؔ نصیب کس کو کہاں پہ پٹخے |
| کسے پتہ الفتوں کی مالا میں دل کا موتی کہاں جڑا ہے |
معلومات