| اب نہ آئیں گے، خبر دار! نہیں آئیں گے |
| ہم ترے ہاتھ میں اس بار نہیں آئیں گے |
| اس کی مسکان ہے پھندہ جو کسے جاتا ہے |
| جال میں اس کے سمجھدار نہیں آئیں گے |
| دفعتاً ان کی طلب بڑھتے ہی خیال آیا |
| قرض لوٹانے خریدار نہیں آئیں گے |
| خواب زریں سرِ بازار نہ بیچے جائیں |
| دام بھرنے کو جفا کار نہیں آئیں گے |
| اس دغا باز کی شہنائی اسی رات ہے، سو |
| میری میت پہ عزادار نہیں آئیں گے |
| منتظر تیرے یہیں بیٹھے رہیں گے جب تک |
| منزلوں کے نظر آثار نہیں آئیں گے |
| ہم نے رشوت کا چلن چھوڑ دیا ہے سِدْویؔ |
| اب مروت میں طرف دار نہیں آئیں گے |
معلومات