| الزام تھا کہ رات کی بارش ڈبو گئی |
| پر گاؤں اپنا میر کی سازش ڈبو گئی |
| ایسا انا پرستی کا ظالم رواج تھا |
| رشتوں کی ناؤ ایک ہی رنجش ڈبو گئی |
| اک دستخط سے اہلِ قلم لے اڑے مکان |
| اک نا سمجھ کو غارتِ دانش ڈبو گئی |
| کل تک تمہارے شہر میں ہم بھی تھے معتبر |
| برسوں کی ساکھ لمحے میں لغزش ڈبو گئی |
| ششدر ہیں بے رخی کے بھنور سے نکل گئے |
| اپنوں کی دل فریب نوازش ڈبو گئی |
| پھیلائی ایسی واعظوں نے تفرقے کی آگ |
| امت کو ناصحان کی شورش ڈبو گئی |
| ایندھن جلا کے کرتے رہے لوگ اپنا کام |
| میرا معاش بجلی کی بندش ڈبو گئی |
| سِدْویؔ جو آج موج کی زد میں بہے انہیں |
| دریا کے پار جانے کی خواہش ڈبو گئی |
معلومات