رفیق اپنے بھی ہوتے غم آس پاس نہ ہوتے
قرار پاتے ، اگر ہم جہاں شناس نہ ہوتے
ترے یقیں پہ تردد کریں مجال کہاں تھی
جو درمیان ہمارے صنم قیاس نہ ہوتے
گلاب کھلنے کی اب کچھ امید باقی نہیں ہے
جو رہتی بادِ بہاراں چمن اداس نہ ہوتے
نہ دوستوں سے گریزاں نہ رتجگوں سے شغف ہے
میں مان لیتا وہ خوش ہیں اگر نراس نہ ہوتے
غریب لوگ ہیں محسن پہ جاں نثار کریں گے
نہ ان کے آگے ہم آتے ، وہ نا سپاس نہ ہوتے
یہ سوچا تھا غمِ دل کو کبھی نہ عریاں کریں گے
نہ اشک بہتے تو پھر درد بے لباس نہ ہوتے
شکستِ ذات میں سِدْویؔ خیال بکھرے ہوئے ہیں
نہ ہوتی مات تو الجھے ہوئے حواس نہ ہوتے

0
38