عیاش حکمراں سے مقصود کچھ نہیں
ملت کو اب اُمِیدِ بہبود کچھ نہیں
صدمات، تنگ دستی، افراطِ مفلسی
شاعر ہوں ایک یعنی موجود کچھ نہیں
اندیشہ بے گھری کا ، روٹی نہ دال ہے
فاقہ زدوں کے گھر میں افزود کچھ نہیں
اے چھوڑ جانے والے گر چاہو لوٹنا
رستے کھلے ہوئے ہیں محدود کچھ نہیں
مسجودِ ساکنانِ افلاک ہے بشر
پھر بھی کہے کہ یومِ موعود کچھ نہیں
افلاک و ماہ و انجم بُنتے ہیں کہکشاں
ہر شے کی منزلت ہے بے سود کچھ نہیں
حق واسطے جو سِدْویؔ قربان جان ہو
اس میں فلاح ہو گی نابود کچھ نہیں

0
48