اک محروم زمانے بھر کا
سرد ٹھٹرتی ہواؤں میں
رات کی گہری تاریکی میں
تشنہ خوابوں کا ڈھونے بوجھ
ہاتھ میں سگریٹ تھام کے تنہا
گوشہ نشینی چھوڑ کے نکلا
کان میں کوئی قہقہہ گونجا
سوچ کی دھارا نے رخ بدلا
کیسا ہجوم تھا چاروں جانب
ایک گروہ میں حاجی صاحب
دوجے گروہ میں ناصب غاصب
اور وہ تنہا مثلِ ثاقب
چلتے چلتے دیکھ رہا تھا
دور گگن میں چاند گہن ہے
خوش گپیوں میں لوگ مگن ہیں
سگریٹ پھونکتے سوچ رہا تھا
رات کے پل یہ کیسی جگن ہے
اس کے اندر کیسی اگن ہے
لوگوں کے سنگی ساتھی ہیں لیکن
اس سے کسی کی گوئی نہیں ہے
انساں گریزاں بخت پریشاں
تنہا جاگے سوئے تنہا
اس کا سہارا کوئی نہیں ہے
کرتا کوئی دل جوئی نہیں ہے
شور سے پھر بے حال مسافر
گوشے میں اپنے واپس پلٹا
اپنے خلوت خانے پلٹ کر
آئنے سے یہ پوچھ رہا تھا
اے سِدْویؔ اے گوشہ نشیں
تنہائی کا سبب بتا دے
تو نے دنیا کو چھوڑا ہے
یا رخ دنیا نے موڑا ہے
توڑنے والے لوگ تھے یا پھر
تو نے خود کو توڑا ہے
دوڑا بخت گھوڑا یا خود
دوڑایا تو نے گھوڑا ہے

0
40