اک درد میں ڈوبی نظم لکھوں
اور تیری جفا تحریر کروں
جو کرب ہے میرے سینے میں
لفظوں میں پرو کر پیش کروں
تو اس کو پڑھے تو چیخ اٹھے
یہ درد و غم محسوس کرے
صفحات پہ تیرے اشک گریں
اور روح تری بھی کانپ اٹھے
تری سانس رکے دل ہول اٹھے
تجھے گزرا زمانہ یاد آئے
الفت کا فسانہ یاد آئے
تجھے جرم ترا جب یاد آئے
سر شرم سے تیرا جھک جائے
تو اپنے گناہ پہ پچھتائے
ناشاد رہے بے چین رہے
اک طوقِ ندامت لے کے پھرے
ہر در پہ رکے تو ڈھونڈے مجھے
تاعمر نہ مجھ کو ڈھونڈ سکے
پھر روتے ہوئے فریاد کرے
تجھے سِدْویؔ ملے آزاد کرے

0
74