چلن فریب کا یا رب سمجھ نہیں پائے
ہم اس کے شہر کا مکتب سمجھ نہیں پائے
ہمی نے اس میں وفاؤں کو دین سمجھا تھا
جفا گری بھی ہے مذہب سمجھ نہیں پائے
تجھے بھی عشق ہے اتنا سمجھ میں آیا تھا
ترے اشارے مگر سب سمجھ نہیں پائے
انہیں نفاق نے رکھا سدا خسارے میں
بشر کہ اپنا جو منصب سمجھ نہیں پائے
جو لوگ رب کی عطاؤں کے آج منکر ہیں
قضا و قدر کا مطلب سمجھ نہیں پائے
وہ لوگ غیر سے کیا آگہی کی آس رکھیں
کہ جن کو اپنے مقرب سمجھ نہیں پائے
نئے نصاب سے تہذیب بھی گئی سِدْویؔ
یہ آج کل کے مہذب سمجھ نہیں پائے

0
37