شعر میں بھی غلو نہیں کرتے
ہم عبث گفتگو نہیں کرتے
غم ہمیں راس آ گیا جب سے
چاک دل کو رفو نہیں کرتے
عشق جس سے ہو دور ہو جائے
اس کو بے آبرو نہیں کرتے
حسرت و یاس ہی مقدر ہے
لوگ جب جستجو نہیں کرتے
جاں خلاصی ہوئی محبت سے
اب تری آرزو نہیں کرتے
اور بھی کام مفلسوں کو ہیں
ہر گھڑی ماہ رو نہیں کرتے
موت کے ہم ہیں منتظر سِدْویؔ
ہست طوقِ گلو نہیں کرتے

0
63