| ہم تو اٹل تھے قول سے باہر نہیں گئے |
| اور لوگ بھاؤ تول سے باہر نہیں گئے |
| وہ بھی حصارِ ذات میں الجھے رہے سدا |
| ہم بھی انا کے خول سے باہر نہیں گئے |
| آمادہ آزری پہ تھے محکوم جب تلک |
| حاکم خدائی بول سے باہر نہیں گئے |
| بے فکر چند پنچھی اُڑے آسمان میں |
| کچھ وحشتوں کے حول سے باہر نہیں گئے |
| اس جگ کی اپنی آنکھ سے عینک اتاریئے |
| کیوں آپ جگ کے جھول سے باہر نہیں گئے |
| اک بعد ایک دھوتے ہیں رسوائیوں کا داغ |
| بدنامیوں کے غول سے باہر نہیں گئے |
| قیمت لگا رہے تھے وہ انمول عشق کی |
| ہم سِدْویؔ بڑھتے مول سے باہر نہیں گئے |
معلومات