ہم وطن کی مٹی کو اپنا دے لہو آئے
کارزار سے یعنی ہو کے سرخرو آئے
راہ میں ترے جیسے چاہے خوب رو آئیں
پلکیں واں بچھائیں گے جس ڈگر سے تو آئے
ننگ تا گلو لے کر ، طوقِ آرزو پہنے
کوئے یار میں بے تاب کرنے گفتگو آئے
جعلی غصہ ور ہو تو کام کام سے رکھے
زشت خو ہو مجھ سا تو میرے روبرو آئے
کچھ گواہ میرے بھی بر خلاف آئے تھے
سوچا تھا عدو ہوں گے دوست سرفرو آئے
بس خدا نے رکھی ہے تیری آبرو سِدْویؔ
اس گلی سے دل تو کیا نین باوضو آئے

0
76