| اک دشتِ ناگوار شبستان کئے ہوئے |
| ہم جی رہے ہیں ہجر کو آساں کئے ہوئے |
| نَے کوئی رازداں نہ کوئی جاں نثار تھا |
| کیا چلتے داغِ دل کو نمایاں کئے ہوئے |
| ہونٹوں پہ مسکراہٹوں کا بوجھ لے کے ہم |
| بیٹھے ہیں آج چشم کو ویراں کئے ہوئے |
| کیسا طلسم ہے کہ گو ملبوس ہے بدن |
| لیکن نظر ہے پردے کو عریاں کئے ہوئے |
| سِدْویؔ بشر بنایا تھا پھرتا ہے پر یہاں |
| انسان اپنے آپ کو حیواں کئے ہوئے |
معلومات