کج خلق کے ترازو میں سب تولنا پڑا
آخر خلافِ طبع مجھے بولنا پڑا
گرچہ محبتوں سے جدا راستہ رہے
اس کو جو دیکھا تو درِ دل کھولنا پڑا
اس خشمگیں نگاہ پہ جس پل نظر پڑی
یارو خودی کو خاک میں تب رولنا پڑا
کیوں بولے؟ پوچھتے ہو، یہ بھی میں بتاؤں کیا
اک ظلم خامشی ہے ، تبھی بولنا پڑا
دیکھی درندگی تو قلم نے اثر لیا
سِدْویؔ بیاں میں زہر جہاں گھولنا پڑا

0
67