اب تو نظر میں شاخ نشیمن کہیں نہیں
ہم جس چمن کے گل تھے وہ گلشن کہیں نہیں
رخصت ہوا ہے باپ تو رشتوں سے ڈر گئے
ہم ڈھونڈتے ہیں پر وہ لڑکپن کہیں نہیں
کلکاریاں بھی بیٹی کی معدوم ہو گئیں
اب پائلوں میں باقی وہ چھن چھن کہیں نہیں
روتے ہیں زار زار وہ ، کیا اشک پونچھتے
اس پیرہن میں گوشۂِ دامن کہیں نہیں
جو ساتھ ساتھ رہتے تھے سب دور ہو گئے
وہ پر خلوص رشتے وہ بندھن کہیں نہیں
ایسی بے مفلسی کہ تخیل کو کھا گئی
اشعار میں ہمارے نیا پن کہیں نہیں
سِدْویؔ ہم ایسے لوگ غموں سے ڈسے گئے
کوئی خوشی ملے بھی مگر من کہیں نہیں

0
52