| بجھ سکے نہ ماند ہو میں وہ التہاب ہوں |
| دوستو میں برسوں سے برسرِ عتاب ہوں |
| فخرِ ماہتاب ہوں مثلِ آفتاب ہوں |
| سِدْویؔ ظلم کے خلاف ایک انقلاب ہوں |
| غرقِ گرد ہوں تہِ خاک ڈھونڈیئے مجھے |
| طاق میں پڑی ہوئی بند اک کتاب ہوں |
| غم جسے سنا کے تو پر سکون سو گیا |
| میں وہی تو سرمۂِ چشمِ نیم خواب ہوں |
| تیرگی حیات کی جس نے خود قبول کی |
| بد نصیب ناسمجھ خانماں خراب ہوں |
| خار ہو کہ فصلِ گل ، بو دیا جو کاٹیے |
| اور ہیں چمن طراز میں تو بس تراب ہوں |
| شہرِ پرفریب کے سِدْویؔ صدقے جائیے |
| سب کو خود فریبی ہے میں تو کامیاب ہوں |
معلومات