عمر بھر ساتھ نبھائے تو کوئی بات بنے
یا کبھی پاس نہ آئے تو کوئی بات بنے
پرفتن دہر میں ہر سمت جفا کاری ہے
فصلِ الفت تو اگائے تو کوئی بات بنے
عارضی ان کی محبت مجھے منظور نہیں
دائمی عشق رچائے تو کوئی بات بنے
چائے میں زہر ملا دے تَو کوئی رنج نہیں
پر تُو ہنس ہنس کے پلائے تَو کوئی بات بنے
شہر پھولوں سے سجا دینا تماشہ ہے فقط
رنگِ گل چہروں پہ چھائے تو کوئی بات بنے
خوش سخن ہے تو دکھے حسن مقالی تجھ میں
اپنے دشمن کو ہنسائے تو کوئی بات بنے
مفلسی تیری تجھے جھکنے پہ مائل نہ کرے
عزتِ نفس کمائے تو کوئی بات بنے
ہم پہ الزام دھرے بات مگر سچی کرے
وہ نہ بے پر کی اڑائے تو کوئی بات بنے
گرچہ تمثیلِ سخن زود اثر ہے سِدْویؔ
آدمی دل میں بسائے تو کوئی بات بنے

0
87