جانِ ادا صبر آزما تو رہا ہوں
بوجھ ترے ہجر کا اٹھا تو رہا ہوں
کر نہ یہ زحمت ، قریب وقتِ نزع ہے
کیوں تو نکالے مجھے میں جا تو رہا ہوں
چھوڑ دے عیش و نشاط تو نے کہا تھا
شالِ عزا اوڑھے ، مسکرا تو رہا ہوں
گیت خوشی کے سنو فراق کے دن ہیں
نغمہ ء امید گنگنا تو رہا ہوں
اب تو لٹانے کو اور کچھ بھی نہیں ہے
شب کا سکوں عشق میں لٹا تو رہا ہوں
تشنہ رہی خواہشِ وصال اگرچہ
سِدْویؔ ترا رمز آشنا تو رہا ہوں

0
40