اک عدوئے بو البشر ، انسان ہے
خاک سے ہے پر شرر انسان ہے
خود کو سمجھے با ہنر ہر آدمی
کس قدر نا دیدہ ور انسان ہے
پوچھتا ہے تو مری اوقات کیا؟
لگتا ہے تو کم نظر انسان ہے
تجھ کو ہے کس بات پر اتنا غرور
تو بھی قصہ مختصر انسان ہے
گو درندہ کہتا ہے حیوان کو
باعثِ فتنہ مگر انسان ہے
غفلتوں کے گیت گائے زندگی
اور ہمہ تن گوش ہر انسان ہے
گرچہ خود غرضی ہے فطرت میں تری
مہرباں بھی بن اگر انسان ہے
آدمی کا دشمنِ جاں آدمی
اس چمن میں وجہِ شر انسان ہے
خود کو جانے ماہتاب و آفتاب
سِدْویؔ لیکن خاک سر انسان ہے

0
482