اجڑ گیا محل سرا تو کیا ہوا
مکینِ دل چلا گیا تو کیا ہوا
میں حیلہ گر فریب ساز شہر میں
برے کے ساتھ ہوں برا تو کیا ہوا
گل اس کی زلف میں سجا ہوا تو ہے
وہ شاخ سے بچھڑ گیا تو کیا ہوا
بنایا راہ زن کو میرِ کارواں
تو پھر یہ قافلہ لٹا تو کیا ہوا
شعورِ آگہی سے جل رہا ہے جو
چراغ آخری بچا تو کیا ہوا
شریکِ غم نہیں بنا تو عیب کیا
ہیں راستے جدا جدا تو کیا ہوا
جہاں فریب کا چلن ہو سِدْویؔ عام
وہاں تو بے وفا ہوا تو کیا ہوا

0
52