| اڑنے کو پر ایسے پنچھی تول رہا ہے |
| جیسے کہ ہمراہ غم کا غول رہا ہے |
| دنیا وہ میخانہ ہے جو فانی ہے لیکن |
| جس کو بھی دیکھو، نشے میں ڈول رہا ہے |
| اس کے بیاں میں نجانے سحر تھا کیا تھا |
| کان میں رس اب تلک جو گھول رہا ہے |
| عالمِ آشوب میں ہر ایک بشر اب |
| کم سمجھ اپنا زیادہ تول رہا ہے |
| ڈھونگی تو روئے گا رو کے مجھ پہ ہنسے گا |
| جا کہ ترے گریے میں بھی جھول رہا ہے |
| کوئی تو سِدْویؔ کتابِ زیست کے صفحات |
| پوچھے بنا رفتہ رفتہ کھول رہا ہے |
| اس کا بھی سنگت پہ سِدْویؔ دل نہیں مائل |
| پر گلے میں تھا بجاتا ڈھول رہا ہے |
معلومات