اڑنے کو پر ایسے پنچھی تول رہا ہے
جیسے کہ ہمراہ غم کا غول رہا ہے
دنیا وہ میخانہ ہے جو فانی ہے لیکن
جس کو بھی دیکھو، نشے میں ڈول رہا ہے
اس کے بیاں میں نجانے سحر تھا کیا تھا
کان میں رس اب تلک جو گھول رہا ہے
عالمِ آشوب میں ہر ایک بشر اب
کم سمجھ اپنا زیادہ تول رہا ہے
ڈھونگی تو روئے گا رو کے مجھ پہ ہنسے گا
جا کہ ترے گریے میں بھی جھول رہا ہے
کوئی تو سِدْویؔ کتابِ زیست کے صفحات
پوچھے بنا رفتہ رفتہ کھول رہا ہے
اس کا بھی سنگت پہ سِدْویؔ دل نہیں مائل
پر گلے میں تھا بجاتا ڈھول رہا ہے

0
42