اب نہیں نخلِ تمنا صفِ اشجار کے پاس
ما سوا یاس نہیں کچھ دلِ آزار کے پاس
تو بتا اے چَمَنِ عشق قرینہ کیا ہے
اک فداکار پھٹکتا نہیں معیار کے پاس
بل پہ ایمان کے وہ بر سرِ پیکار رہا
ایک بھی باقی نہ تھا تیر کماں دار کے پاس
قافلے آتے ہوئے جاتے ہوئے دیکھے مگر
میں عزادار رہا روضہِ اطہار کے پاس
عالمِ جذب میں ہیں اہلِ خرد اہلِ خرو
نہ کوئی پھٹکا مگر عالمِ اسرار کے پاس
کون چل پایا بھلا وقت کی رفتار کے ساتھ
اک رکاوٹ ہے غنود آس کی دیوار کے پاس
ایسے منہ زور ہواؤں سے لڑا ہوں سِدْویؔ
جیسے کوئی ہو مکیں آفتِ ادوار کے پاس

0
29