شجر پر سانپ جب آنے لگے ہیں
تو پنچھی شاخ سے جانے لگے ہیں
تمھیں بھی عشق نے رسوا کیا ہے
ہمیں بھی روگ تڑپانے لگے ہیں
رچایا کھیل ایسا مفلسی نے
کئی اک لوگ کترانے لگے ہیں
ترے جانے نے ایسا غم دیا ماں
کہ ہم جیون سے اکتانے لگے ہیں
سرِ محفل اکیلا پن ہے کیسا
یہ گتھی آج سلجھانے لگے ہیں
وہ ہم نے جھیلے ہیں صدموں پہ صدمے
کہ اب صدمے بھی گھبرانے لگے ہیں
اجل کو چل دئے امجد تو سِدْویؔ
سخن کے گھر عزا خانے لگے ہیں

0
58