| شجر پر سانپ جب آنے لگے ہیں |
| تو پنچھی شاخ سے جانے لگے ہیں |
| تمھیں بھی عشق نے رسوا کیا ہے |
| ہمیں بھی روگ تڑپانے لگے ہیں |
| رچایا کھیل ایسا مفلسی نے |
| کئی اک لوگ کترانے لگے ہیں |
| ترے جانے نے ایسا غم دیا ماں |
| کہ ہم جیون سے اکتانے لگے ہیں |
| سرِ محفل اکیلا پن ہے کیسا |
| یہ گتھی آج سلجھانے لگے ہیں |
| وہ ہم نے جھیلے ہیں صدموں پہ صدمے |
| کہ اب صدمے بھی گھبرانے لگے ہیں |
| اجل کو چل دئے امجد تو سِدْویؔ |
| سخن کے گھر عزا خانے لگے ہیں |
معلومات