غمی غمی نہ رہے اور خوشی خوشی نہ رہے
دیے نہ سارے بجھانا کہ روشنی نہ رہے
چمن وہ کیسا کہ جس میں کھلا گلاب نہ ہو
بہار کیسی کہ ڈالی کوئی ہری نہ رہے
جنون کیسا جو کاوش کرے نہ دیوانہ
وہ عشق کیا کہ محبت رہی سہی نہ رہے
یہ کیا کہ ننھے سے ہاتھوں میں اک ہتھوڑا ہے
کفیل گھر کا بنے چاہے کم سنی نہ رہے
صنم کدہ بھی کہاں پر سکون ہے سِدْویؔ
حیات کیا ہے اگر چین دو گھڑی نہ رہے

0
42