| کیسی الجھن نے مرا ذہن جکڑ رکھا ہے |
| آس کا سر ہے جدا یاس کا دھڑ رکھا ہے |
| کچھ صدائیں ہیں جو آگے نہیں بڑھنے دیتیں |
| تیری چوکھٹ نے مرا پاؤں پکڑ رکھا ہے |
| بت شکن تم بھی نہیں دل کے صنم خانے میں |
| اک تراشے ہوئے پتھر کو رگڑ رکھا ہے |
| وہ کہ خیراتِ تبسم بھی گراں بار جنہیں |
| ہم کہ احساس بھی تصویر میں جڑ رکھا ہے |
| زندہ ہونے کا تو احساس دلا دے سِدْویؔ |
| اس نے افسانہ تری موت کا گھڑ رکھا ہے |
معلومات