محبت ہے دل لگی ہے دغابازیاں بھی ہیں
مرے یار کی سرشت میں دلداریاں بھی ہیں
غلط فہمی صرف ہم کو نہ تھی وہ گلاب ہے
اسی کے مغالطے میں کئی تتلیاں بھی ہیں
ضروری نہیں کہ رات کی بےخوابیاں ہی ہوں
نہاں الفتوں کے کھیل میں رسوائیاں بھی ہیں
تہی دستی کا میں دوش مقدر پہ کیوں دھروں
شکستہ پری میں کچھ مری کوتاہیاں بھی ہیں
یہی مصلحت ہے تجھ کو میں مجبور مان لوں
مگر جانتا ہوں اس میں اداکاریاں بھی ہیں
یہاں کس سے دل کی بات ہو مصروف ہیں سبھی
اگرچہ عزیز بھی ہیں شناسائیاں بھی ہیں
تری دوستی میں سِدْویؔ شفق رنگ ہے کہ کیا؟
ہر اک سے عداوتیں ہیں وفاداریاں بھی ہیں

0
87