| لگا تھا دور ہے پر تھا وہیں قاتل پسِ دیوار |
| مقیمِ آستیں نکلا ، ملا ہے بل پسِ دیوار |
| بظاہر جاں چھڑکتا ہے پسِ پردہ عداوت ہے |
| وہ نظریں ہم پہ ٹھہری ہیں زبان و دل پسِ دیوار |
| ہمارے ذہن کی الجھی ہوئی گرہیں نہیں سلجھیں |
| پسِ زنداں رہا ماضی کہ مستقبل پسِ دیوار |
| نصیب اپنا کسے معلوم ہے کیا دن دکھائے گا |
| یہاں غافل وہاں کامل کہیں باطل پسِ دیوار |
| متاعِ عمر ہے کاوش، چلا جو کارواں سِدْویؔ |
| ابھی رکنا نہیں ممکن کہ ہے منزل پسِ دیوار |
معلومات