ظلم کے خلاف تھا لوگ دیکھتے رہے
اک نہیں تھا ہمنوا لوگ دیکھتے رہے
بزدلوں کے درمیاں ایک شخص تھا نڈر
لڑتے لڑتے مر گیا لوگ دیکھتے رہے
لوگ پوچھنے لگے پانی کتنا گہرا ہے
کوئی ڈوبتا رہا لوگ دیکھتے رہے
اک ترقی یافتہ دلفریب شہر کو
آفتوں نے آ لیا لوگ دیکھتے رہے
اک غریب شخص کی آہِ جانکاہ نے
عرش کو ہلا دیا لوگ دیکھتے رہے
تیرے بعد ہم سفر ہم نے دیکھا ہی نہیں
دوسرے سے تیسرا لوگ دیکھتے رہے
سِدْویؔ اپنا عیب تو کوئی دیکھتا نہ تھا
العجب کہ غیروں کا لوگ دیکھتے رہے

0
55