| مظلوم تھا جو دامِ ستم کار میں آیا |
| نام اپنا ترے خبطی پرستار میں آیا |
| انداز ، لب و لہجہ ، خمِ ابرو ، ادائیں |
| ہر فخر جدا قامتِ دلدار میں آیا |
| اک گل بھی نہیں ، پیڑ ثمر بار نہیں ہے |
| دم ہم کو اسی حلقۂِ اشجار میں آیا |
| مے خوار چلے آئیں مئے چشم کو پینے |
| وہ سحر تری شوخی ء گفتار میں آیا |
| تو دام لگا دیتی زلیخا تو نہیں تھی |
| پھر بھی میں ترے شہر کے بازار میں آیا |
| ہر شخص وفادار ترے شہر میں مشہور |
| اک میں ہی نگوں سار جفا کار میں آیا |
| ہر لحظہ یہاں ایک مصیبت میں گھرا ہوں |
| کیا شکوہ اگر خود ہی ہوس زار میں آیا |
| اب شاخ شجر پاس بلائے نہ بلائے |
| گو سِدْویؔ لہو اپنا ثمن زار میں آیا |
معلومات