| اک خبر سن کے سینہ چھلنی ہے |
| چشم نمناک، دل پریشاں ہے |
| ایک مفلس غریب فاقہ کش |
| گھر کا واحد کفیل چارہ گر |
| جس کے کندھوں پہ بوجھ بچوں کا |
| سستا راشن جو لینے آیا تھا |
| بھیڑ میں اس نے جاں گنوا دی ہے |
| المیہ ہے عوام مفلس ہے |
| فاقہ کش لوگ چار جانب ہیں |
| دال روٹی پہنچ سے باہر ہے |
| جبکہ بر عکس حاکموں کے ٹھاٹھ |
| گھر میں وافر اناج بھرتے ہیں |
| ایک جانب بڑے بڑے تاجر |
| مہنگی گندم فروخت کرتے ہیں |
| اک طرف لوگ بھوکے مرتے ہیں |
| اس پہ احوالِ صاحبِ ثروت |
| چپ ہیں سب مقتدر حکومت کے |
| حاکمِ بالا مثلِ کرگس ہیں |
| قاضی کے کان پر نہ جوں رینگے |
| تشنہ لب ہیں سبھی معیشت دان |
| صاحبِ علم و ہم سخن خاموش |
| سوچتا ہوں کہ کون قاتل ہے؟ |
| اس معیشت کے تاج ور تاجر |
| اہلِ دانش ، حکومتی ایوان |
| کیا ملوث گراں فروش نہیں |
| جن کی لاکھوں ذخیرہ گاہیں ہیں |
| یا ہے مفلس کی مفلسی قاتل |
| مرتے ہیں لوگ اب تو ڈر حاکم |
| دال روٹی کا ہو تو ہو فقدان |
| پر تو گندم ذخیرہ کر ، تاجر |
| بد دعا ہے گراں فروشوں کو |
| حاکم و مقتدر کو قاضی کو |
| سب شکم سیر ہوں اجل پائیں |
| حشر کے روز روبرو آئیں |
| ساتھ ان کے ہو مال و زر وافر |
| طوق بن کر گلوں میں لٹکا ہو |
| ہاتھ مفلس کا ہو گریباں پر |
| پوچھا جائے کہ کون قاتل ہے |
| جو ملوث ہیں پورا پھل پائیں |
| اور نوالہ سقر کا بن جائیں |
معلومات