| تو نہیں تو شہرِ عتاب میں کوئی غم گسار نہیں رہا |
| میں سخن نگار نہیں رہا تو مرا وقار نہیں رہا |
| میں قضا کا شکر ادا کروں یہ لحد تو جائے قرار ہے |
| کہ جہاں کی فکر نہیں رہی غمِ روزگار نہیں رہا |
| تمھیں مومنو یہ نوید ہے کہ یہ راہ راہِ نجات ہے |
| ہے نفاق و کفر کا راستہ جو ابد قرار نہیں رہا |
| تو جفا شعار حبیب ہے ترا التفات فریب ہے |
| میں ترا بھروسہ کروں تو کیا ترا اعتبار نہیں رہا |
| وہ جو ساعتیں تھیں وہ بھول جا تو مجھے بھی دل سے نکال دے |
| جو لگے کہ لمحہ وصال کا کبھی خوشگوار نہیں رہا |
| سبھی کام چھوڑ کے آئے گا وہ بھی چار پھول چڑھائے گا |
| مرے ہم نفس کو خبر کرو کہ رفیق کار نہیں رہا |
| وہی ایک گھر میں چراغ تھا وہ بجھا تو پھیلی ہے تیرگی |
| وہ جو رونقیں تھیں چلی گئیں کہ وہ حسن زار نہیں رہا |
| پسِ مرگ سِدْویؔ عیاں ہوئے ہیں رموزِ کشمکشِ حیات |
| وہ عتاب و درجۂِ کشمکش مجھے ناگوار نہیں رہا |
معلومات