دامنِ کوہ سے جیسے کہ دھواں اٹھتا ہے
صورتِ اشک کسی دل سے فغاں اٹھتا ہے
ساکھ اپنی جو بنائی ہے سنبھالے رکھنا
جو بھی گر جائے نظر سے وہ کہاں اٹھتا ہے
واعظا پند و نصائح میں ترے جبر ہے کیا؟
دین سے اب کے شب و روز اماں اٹھتا ہے
وہ تو مشغول ہے کھیلوں میں پڑھے یا نہ پڑھے
دے کے پیغام ترا نامہ رساں اٹھتا ہے
شک کے پہلو میں فقط وہم و گماں پلتے ہیں
ایسے حالات میں الفت کا نشاں اٹھتا ہے
آفتِ دہر کے چنگل سے نکل بھی جاؤں
اک نیا اور فتن بعد ازاں اٹھتا ہے
ربط ملتا ہی نہیں تیری صدا میں سِدْویؔ
تیرے اشعار سے اب حرفِ بیاں اٹھتا ہے

0
49