| دامنِ کوہ سے جیسے کہ دھواں اٹھتا ہے |
| صورتِ اشک کسی دل سے فغاں اٹھتا ہے |
| ساکھ اپنی جو بنائی ہے سنبھالے رکھنا |
| جو بھی گر جائے نظر سے وہ کہاں اٹھتا ہے |
| واعظا پند و نصائح میں ترے جبر ہے کیا؟ |
| دین سے اب کے شب و روز اماں اٹھتا ہے |
| وہ تو مشغول ہے کھیلوں میں پڑھے یا نہ پڑھے |
| دے کے پیغام ترا نامہ رساں اٹھتا ہے |
| شک کے پہلو میں فقط وہم و گماں پلتے ہیں |
| ایسے حالات میں الفت کا نشاں اٹھتا ہے |
| آفتِ دہر کے چنگل سے نکل بھی جاؤں |
| اک نیا اور فتن بعد ازاں اٹھتا ہے |
| ربط ملتا ہی نہیں تیری صدا میں سِدْویؔ |
| تیرے اشعار سے اب حرفِ بیاں اٹھتا ہے |
معلومات